حوا کی بیٹی کی عزت

 #copied

مدد چاہتی ہے یہ حّوا کی بیٹی 


یہ شرم ناک سانحہ اس چودہ اگست کو مینار پاکستان کی چھاؤں میں ایک پاکستانی ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ پیش آیا جو ٹک ٹاک بنا رہی تھی 

جس نے پورے کپڑے پہن رکھے تھے پھر بھی منٹو پارک میں موجود ہزاروں پاکستانی نوجوان اُس لڑکی پر یوں جھپٹے گویا کُتا کھلے گوشت پر جھپٹنا ہے 

پھر کیا تھا حوّا کی ہم جنس کے کپڑے پھاڑ کر برہنہ کر ڈالا 

وہ ننگی آزاد پاکستانی لڑکی چیختی چلاتی رہ گئی مگر آدم کے بیٹوں نے مینار پاکستان کے سائے میں اس کا وہ حشر کیا کہ سن سنتالیس میں عزتیں لوٹنے والے ہندوؤں کی آتما شرمندہ ہوگئی

تب ہندو نے مسلمان بچیوں کو بے آبرو کیا تھا آج پاکستانی غیرت مند اُس روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں 

جی ہاں یہ واقعہ چودہ اگست دو ہزار اکیس کو لاہور کے اقبال پارک میں پیش آیا 

میں پچھلے تیس سال میں ایسے تین واقعات کا چشم دید گواہ ہوں مگر وہ رپورٹ نہیں ہوئے 

آج منٹو کا پہلا افسانہ “کھول دو “ یاد آگیا جو تقسیم کے وقت کی ایک کہانی تھی جس میں ایک محاجر باپ سراج دیں اپنی بیٹی سکینہ کو محاجر کیمپ میں تلاش کرتا پھر رہا تھا 

سراج دین اپنی بیٹی سکینہ اور بیوی کے ساتھ پاکستان کی طرف سفر کر رہا تھا راستے میں اسٹیشن پر بلوائیوں نے حملہ کردیا 

سراج دین کی بیوی تو موقع پر ماری گئی مگر سکینہ بچھڑ گئی 

بس اُس کا دوپٹہ سراج کے پاس رہ گیا تھا 

روتے  دوھوتے سراج دین کو کسی نے بتایا کہ کچھ نوجوان ہیں جو لاری لیکر بندوقیں تھام کر امرتسر جاتے ہیں اور وہاں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو باحفاظت پاکستان لاتے ہیں یعنی وہ اُس وقت رسکیو کا کام کر رہے تھے 

سراج دین اُن عظیم جوانوں کے پاس گیا اور بڑی امید سے بتایا کہ سکینہ کے گال پر بڑا سا تل ہے اور نین نقش ایسے ہیں امرتسر کے پاس مجھ سے جُدا ہوئی تھی 

نوجوانوں نے سراج دین کو یقین دلایا کہ وہ اُس کی بیٹی کو جلد ڈھونڈ لائیں گے 

اور لاری لیکر نکل گئے


امرتسر کے راستے میں رضاکاروں کی نظر ایک لڑکی پر پڑی لڑکی گھبرا کر بھاگ گئی رضاکاروں نے بھاگ کر اُس لڑکی کو روکا 

دیکھا تو گال پر بڑا سا تل تھا 

یہ سراج دین کی سکینہ ہی تھی 

آٹھ لڑکوں نے اس کی دل جوئی کی اپنا کوٹ اتار کر دیا کیونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث سکینہ اُلجھن محسوس کر رہی تھی 

کئی دن گزر گئے جب سکینہ کا 

سراغ نہ ملا تو سراج دین اُن رضاکار جوانوں کے پاس گیا اور پوچھا “ سکینہ کا کچھ پتہ چلا “

چل جائے گا ۔ چل جائے گا کہہ کر جوان چلے گئے 

سراج دین نے ایک بات پھر اُن نوجوانوں کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگی 


ایک شام چند لوگ کچھ اٹھا کر عارضی کیمپ ہسپتال میں لائے تھے 

سراج دین نے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بے ہوش پڑی تھی جسے لوگ اٹھا لائے ہیں 

سراج دین ہسپتال کے کمرے میں داخل ہوا اسٹریچر پر ایک لاش پڑی تھی 

سراج دین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا 

کمرے میں روشنی ہوگئی سراج دین 

نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا اور چلایا 

سکینہ !

ڈاکٹر جس نے لائٹ جلائی تھی سراج دین سے پوچھا 

کیا ہے ؟

سراج دین کے منہ سے صرف اتنا نکل سکا ۔ جی میں 

جی میں ۔۔۔اسکا باپ ہوں 


ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا اس کی نبض ٹٹولی  اور سراج دین سے کہا 

“کھڑکی کھول دو “


سکینہ کے مُردہ جسم میں جُنبش پیدا ہوئی ۔ بے جان ہاتھوں سے اُس نے ازاربند  کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی 


بوڑھا سراج دین خوشی سے چلایا 

زندہ ہے ، میری بیٹی زندہ ہے 

ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہوگیا


(مطلب یہ کہ سکینہ کی عزت کے لٹیرے وہی آٹھ رکھوالے رضاکار تھے) 


دوستو اس افسانے کے چھپنے کے بعد منٹو پر کیس کر دیا گیا وہ تاریخیں بھگتا رہا 

جس رسالے نے یہ افسانہ چھاپہ تھا وہ سیل کر دیا گیا 

اور منٹو کو فحش لکھاری قرار دیکر ادیبوں کی فہرست سے نکال دیا گیا

کیونکہ وہ آیئنہ دکھا رہا تھا  

مگر آج منٹو کے کردار ہمیں تسلسل سے نظر آ رہے ہیں کبھی زینب لُٹ جاتی ہے 

کبھی موٹر وے پر حوّا کی ہم جنس بے آبرو کر دی جاتی ہے 

کبھی مدرسے کا مفتی لوطی قوم کا پیروکار نکل آتا ہے تو کبھی حوّا کی بیٹی کے کپڑے پھاڑ کر کتوں کی طرح بھمبھوڑا جاتا ہے 

کیوں ؟ کیوں ہوتا ہے یہ سب ؟

سب سزا کی بات کرتے ہیں کہ چوک میں لٹکا دو 

گولی مار دو 

سر قلم کر دو

سب جرم کے بعد کی بات کرتے ہیں 

 

مگر میں کہتا ہوں کہ ان سانحات کو ہونے سے روکا جائے اور اُس کے لئے ریاست مدینہ دوئم  میں اخلاقی ایمرجنسی نافذ کر دی جائے 

تاکہ یہ انتہا پسندی ختم ہو 

ورنہ یہ شہوانی خود کُش حملہ آور یا تو عورتوں کو بے آبرو کریں گے 

یا 

دھرم کے نام پر رنجیت سنگھ کا مجسمہ توڑیں گے 

کسی غریب کی چنگ چی جلائیں گے 

یا

سڑک بلاک کر کے ٹائروں کو آگ لگا کر اپنے آلودہ ذہن کی طرح پاکستان کی پاک فضاء کو آلودہ کریں گے 

ہن  اینا دا کج کر لو رب دا واسطہ جے 🙏

پا جی معیشت نئیں معاشرت سنوارو 

از قلم افتخار افی

Comments

Popular posts from this blog

Just five minutes more

احسان فراموش

What is the woman?