Posts

Showing posts from September, 2021

حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے اخلاق و عادات

 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک شخص آپ سے ملنے مدینے کو چلا.... جب مدینے کے پاس پہنچا تو آدھی رات کا وقت ہو چکا تھا۔۔ ساتھ میں حاملہ بیوی تھی تو اس نے مدینے کی حدود کے پاس ہی خیمہ لگا لیا اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ بیوی کا وقت قریب تھا تو وہ درد سے کراہنے لگی۔۔۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے روز کے گشت پر تھے اور ساتھ میں ایک غلام تھا۔۔۔۔ جب آپ نے  دیکھا کے دور شہر کی حدود کے پاس آگ جل رہی ہے اور خیمہ لگا ہوا ہے تو آپ نے غلام کو بھیجا کہ پتہ کرو کون ہے۔۔۔  جب پوچھا تو اس نے ڈانٹ دیا کہ تمہیں کیوں بتاؤں۔۔ آپ گئے اور پوچھا تو بھی نہیں بتایا آپ نے کہا کہ اندر سے کراہنے کی آواز آتی ہے کوئی درد سے چیخ رہا ہے بتاؤ بات کیا ہے تو اس شخص نے بتایا کہ میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق سے ملنے مدینہ آیا ہوں میں غریب ہوں ، رات زیادہ ہے تو خیمہ لگایا ہے اور صبح ہونے کا انتظار کر رہا ہوں، بیوی امید سے ہے اور وقت قریب آن پہنچا ہے تو آپ جلدی سے پلٹ کر جانے لگے کہ ٹھہرو میں آتا ہوں۔۔۔ آپ اپنے گھر گئے اور فوراً اپنی زوجہ سے مخاطب ہوئے کہا کہ اگر تمہیں بہت بڑا اجر مل رہا ہو تو لے لو

“چور کی داڑھی میں تنکا“

  چور کی داڑھی میں تنکا“ محاورہ کیسے بنا؟ آئیں اس کی تاریخ جانتے ہیں ایک مرتبہ اکبر بادشاہ کی انگوٹھی کھو گئی-اکبر بڑا پریشان ہوا کیونکہ یہ اس کے باپ کا تحفہ اور نشانی تھی۔ جب بیربل دربار میں پہنچا تو اکبر نے سارا ماجرا اس کو سنایا اور اس سے کہا کہ تم بہت سیانے بنتے ہو۔ اب زرا ہماری انگوٹھی ڈھونڈ کر دکھاؤ تو تم کو جانیں۔ بیربل بولا۔ ” جہاں پناہ، آپ فکر نہ کریں۔ آپ کی انگوٹھی ابھی مل جاتی ہے۔”آپ کی انگوٹھی دربار میں ہی موجود ہے اور کسی درباری نے اسے اپنے پاس چھپایا ہوا ہے۔اور یہ …چور درباری وہ ہے کہ جس کی داڑھی میں تنکا اٹکا ہوا ہے۔ جس درباری کے پاس انگوٹھی تھی وہ خوفزدہ ہو گیا اور غیر ارادی طور پر اس کا ہاتھ اپنی داڑھی کی طرف اٹھ گیا۔ بیربل کی تیز نگاہوں نے فوراً اس درباری کو بھانپ لیا اور اس کی طرف اشارہ کر کے بولا کہ ۔” جہاں پناہ یہی وہ چور ہے جس کے پاس آپ کی انگوٹھی ہے۔”اس کی تلاشی لیجئے۔”تلاشی لینے پر انگوٹھی برآمد ہوگئی۔ اکبر بڑا حیران ہوا کہ بھلا بیربل کو چور کا پتہ کیسے چلا۔اسی لئے مشہور ہو گیا کہ چور کی داڑھی میں تنکا یعنی کہ مجرم كا ضمير ہمیشہ خوفزدہ ہوتا ہے۔

{ مسجد کی ٹوپی }

 { مسجد کی ٹوپی } دنیا میں کتنے غلط کام ہو رہے ہیں؟ کبھی کسی نے روکنے کی کوشش کی کہ کیوں کر رہے ہو۔؟ ہمت ہی نہیں کہنے کی۔ ذرا اپنے محلہ میں موجود کسی سود خور کو حکم ربی سنائیں۔  دیکھیں پھر کیا کرتا ہے آپ کے ساتھ۔ لیکن لوگوں کی غیرت تب جاگتی ہے جب آپ مسجد سے وہ میلی پلاسٹک کی ٹوپی سر پر پہنے  باہر نکل آئیں۔ تب لوگوں کو لگتا ہے کہ کائناتی گردش رک جائے گی اگر اس شخص کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ ساٹھ روپے درجن ٹوپیاں جو کل ملا کر بھی "مال متقوم" کے زمرے میں نہیں آتی ان کی ایک بہن آپ کے سر پر کیا سوار ہوجائے غلطی سے، بھائی تو جیسے دیوانے ہوجائیں۔ ابھی مسجد سے وہی ٹوپی سر پر رکھے باہر نکلا ہر بندہ کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے  ایک نے ہمت کی اور کہا کہ یہ مسجد کی ٹوپی ہے جو آپ نے پہنی ہے۔ معا خیال گیا کہ ٹوپی مسجد سے باہر لے آئے ہیں۔ پھر سوچا چلو لوگوں سے کھیلتے ہوئے جاتے ہیں اور مغرب میں واپس رکھ دینگے  ایک نے دور سے اتنی سرعت سے ہاتھ ہلانا شروع کیا کہ گمان ہی باطل کردیا ہمارا۔  بھاگتے ہوئے قریب آیا۔  اکھڑی سانسوں کہنے لگا بھائی!بھائی!  مسجد کی ٹوپی باہر لے آئے ہو آپ۔ اچھا؟ ٹوپیاں

ملکیت "رلا دینے والی اک سچی داستاں"

 "#ملکیت" "رلا دینے والی اک سچی داستاں" ہماری شادی بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی۔ ایک رات اس کا مجھے میسج آیا کہ چلو شادی کر لیں۔ یہ بات میرے لئے تشویش ناک تھی کیونکہ ایک سیٹلڈ لائف کے بغیر شادی کرنا ہمارے خود ساختہ اصولوں کے خلاف تھا۔!! ہم ایک دوسرے کو عرصے سے جانتے تھے۔ ایک شہر، ایک محلہ اور پھر ایک سکول۔ ہماری پسند ٹین ایج میں ہی محبت میں تبدیل ہو چکی تھی۔۔ متوسط گھرانوں سے ہونے کے باوجود اس نے میری نسبت بڑے مشکل حالات دیکھے تھے۔ جس کی ایک وجہ اس کا مخصوص گھرانہ تھی۔ وہ مالی طور پہ بھی وہ بہت مستحکم نہیں تھے اسی باعث اس نے ہمیشہ ایک سیٹلڈ لائف پارٹنر کی خواہش کی تھی، شاید اسکے لئے یہی ایک راہ فرار بچی تھی۔!!  میں ابھی حال ہی میں گریجویٹ ہوا تھا اور ہر پاکستانی نوجوان کی طرح ڈگری کرنے کے بعد یہ سوچ رہا تھا کہ اب کمانے کے لئے کیا کرنا ہے۔. اس دن اس کے گھر میں معمول کے مطابق ہونے والی لڑائی کچھ مختلف تھی۔۔۔ جب اس کا مجھے میسج آیا تو میرے طوطے اڑ چکے تھے۔ اس نے اپنے سارے اصولوں کی گٹھریاں ایک تنکے کے ساتھ باندھ دی تھیں اور وہ "#میں" تھا۔!!  اس نے بس ایک سوال ک

Silent Message

 *ساس کو زھر دینے کا طریقہ* کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ایک لڑکی جس کا نام تبسم تھا اس کی شادی ہوئی وہ سسرال میں اپنے شوہر اور ساس کے ساتھ رہتی تھی- بہت کم وقت میں ہی تبسم کو یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ اپنی ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی- ان دونوں کی شخصیت بالکل مختلف تھی  اور تبسم اپنی ساس کی بہت ساری عادتوں سے پریشان تھی- اس کی ساس ہر وقت تبسم پر طنز کرتی رہتی تھیں جو اسے بہت ناگوار گزرتا تھا- آہستہ آہستہ دن اور پھر ہفتے بیت گئے لیکن تبسم اور اس کی ساس کی تکرار ختم نہ ہوئی- ان تمام نااتفاقیوں نے گھر کا ماحول بہت خراب کردیا تھا جسکی وجہ سے تبسم کا شوہر بہت پریشان رہتا تھا- آخرکار تبسم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ساس کا برا رویہ اور برداشت نہیں کریگی اور وہ اب ضرور کچھ نہ کچھ کرے گی- تبسم اپنے پاپا کے ایک بہت اچھے دوست احمد انکل کے پاس گئی جو جڑی بوٹیاں بیچتے تھے- تبسم نے انھیں ساری کہانی بتائی اور ان سے کہا کہ وہ اس کو تھوڑا سا زہر دے دیں تاکہ ہمیشہ کے لئے یہ مسئلہ ختم ہوجائے- احمد انکل نے تھوڑی دیر کیلئے کچھ سوچا اور پھر کہا کہ تبسم میں اس مسئلے کو حل کرنے میں تمہاری مدد کرونگا لیکن تمہیں ویسا

Quaid Death Anniversary

 Death Anniversary of the Quaid. Muhammad Ali Jinnah was the founder and first Governor-General of Pakistan till his death on 11th September 1948.  He worked in a frenzy to consolidate Pakistan. And, of course, he totally neglected his health. Jinnah worked with a tin of Craven "A" cigarettes at his desk, of which he had smoked 50 or more a day for the previous 30 years, as well as a box of Cuban cigars. He along with Fatima Jinnah flew to Quetta and then on the advice of doctors moved to Ziarat. His condition was worsening and he then weighed just over 36 kilograms. By 9 September, Jinnah had also developed pneumonia. Doctors urged him to return to Karachi, where he could receive better care, and with his agreement, he was flown there on the morning of 11 September. Dr Ilahi Bux, his personal physician, believed that Jinnah's change of mind was caused by foreknowledge of death. The plane landed in Karachi in the afternoon, Mr Jinnah was shifted to the ambulance but unfor

نفس اور شیطان اور اللہ کے احکامات

 ہندوستان میں ایک نواب کی خوبرو لڑکی فسادات کے دوران ایک مسجد میں پناہ لینے داخل ہوئی تو دیکھا ایک نوجوان طالب علم درس و تدریس میں مشغول ہے- بغیر کوئی آہٹ کیے لڑکی چند ساعت خاموش کھڑی رہی اور پھر طالب علم کے قریب چلی گئی- اسلامی رنگ میں رنگے طالب علم نے جب ایک نوجوان لڑکی کو مسجد میں غیر شرعی حالت میں دیکھا تو اسے مسجد سے نکلنے کو کہا جس سے لڑکی نے انکار کیا- طالب علم نے غصہ، منت و سماجت ہر حربہ آزمایا مگر لڑکی نے اللہ کا واسطہ دے کر کہا کہ بہر کی عزت کو خطرہ ہے اور اسے رات یہیں گزارنے دیا جائے- اس پر طالب علم نے کہا کہ ایک شرط پر تم مسجد میں ٹھہر سکتی ہو کہ ایک کونے میں پوری رات خاموش بیٹھی رہو گی اور کسی صورت میرے ساتھ بات نہیں کرو گی- ادھر نوجوان طالب علم ہر تھوڑی دیر بعد اپنی ایک انگلی آگ پر رکھتا اور پھر وہ سسکیاں لے کر ہٹاتا- لڑکی رات بہر یہ تماشا دیکھتی رہی مگر کچھ کہنے سے قاصر تھی- خدا خدا کرکے صبح ہوئی- لڑکا اذان دینے اٹھا اور لڑکی سے کہا کہ وہ اب مسجد سے نکلے کیونکہ نمازی آنے والے ہوں گےتاکہ کوئی بدگمانی نہ کرے- لڑکی نے كہا ٹھیک مگر مجھے ایک بات بتا دیں کہ رات بھر آپ وقفے وقف

حاصلِ تحریر

 👈کہتے ہیں کہ کسی دُور اُفتادہ دیہات میں ایک معزز مہمان آیا۔ بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ گاؤں کا گاؤں اُس کے سامنے بچھا جا رہا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو انواع و اقسام کی نعمتیں اُس کے سامنے دسترخوان پر لا کر چُن دی گئیں۔ ساتھ ہی ایک بڑی سی سینی میں ایک لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بھی لا کر رکھ دیا گیا۔ مہمان نعمتیں دیکھ کر تو خوش ہوا مگر ڈنڈا دیکھ کر ڈر گیا۔ سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا: ’’آپ لوگ یہ ڈنڈا کس لئے لائے ہیں؟‘‘ میزبانوں نے کہا: ’’بس یہ ہماری روایت ہے۔ بزرگوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ مہمان آتا ہے تو اُس کے آگے کھانے کے ساتھ ساتھ ڈنڈا بھی رکھ دیتے ہیں‘‘ مہمان کی تسلی نہ ہوئی۔ اُسے خوف ہوا کہ کہیں یہ تمام ضیافت کھانے کے بعد ڈنڈے سے ہضم نہ کرائی جاتی ہو۔ اُس نے پھر تفتیش کی: ’’پھر بھی، اس کا کچھ تو مقصد ہو گا۔ کچھ تو استعمال ہو گا۔ آخر صرف مہمان کے آگے ہی ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے؟‘‘ میزبانوں میں سے ایک نے کہا: ’’اے معزز مہمان! ہمیں نہ مقصد معلوم ہے نہ استعمال۔ بس یہ بزرگوں سے چلی آنے والی ایک رسم ہے۔ آپ بے خطر کھانا کھائیے۔‘‘ مہمان نے دل میں سوچا: ’’بے خطر کیسے کھاؤں؟ خطرہ تو سامنے ہی رکھا ہوا ہ

احسان فراموش

 ایک بادشاہ اپنے گھوڑے سے گرا اور اس کی کمر کے مہرے ہی اپنی جگہ سے بلکل کھسک گئے ، اور درجنوں طبیبوں کے علاج سے بھی بلکل کوئی افاقہ نہ ہوا، اور پھر اچانک کیسے ٹھیک ہو گیا ؟ناقابل یقین واقعہ ایک بادشاہ اپنے مُنہ زور گھوڑے پر سوار تھا. اور گھوڑا کسی وجہ سے بدکا تو بادشاہ سر کے بل ہی زمین پر گر گیا اور اس کی گردن کی ھڈی کے مُہرے ہل گئے اب وہ گردن کو حرکت دینے پر بھی بلکل قادر نہ رہا. اور شاہی طبیبوں نے اپنی طرف سے سر توڑ کوششیں کیں مگر وہ بادشاہ کا علاج بلکل نہ کر سکے. ایک دن یونان کا ایک حکیم بادشاہ کے پاس آیا اور اس قدر ہی جانفشانی سے علاج کیا بادشاہ ٹھیک ھو گیا۔۔!! علاج کے بعد ہی وہ حکیم اپنے وطن بھی لوٹ گیا۔۔!! کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ بادشاہ کے میں آیا تو سلام کے ارادے سے شاھی دربار میں بھی حاضر ھوا۔ اور اب لازم تھا کہ بادشاہ از روئے قدر دانی اس حکیم سے مروت اور مہربانی کا برتاؤ کرتا لیکن بادشاہ ایسے ہی بن گیا جیسے اس حکیم کو بلکل ہی جانتا ہی نہ ہو بادشاہ کے اس رویے سے حکیم بہت سخت رنجیدہ ہوا۔۔!! اور یونانی حکیم بادشاہ کے دربار سے باہر آیا تو اس نے ایک غلام کو پاس بلا کر کہا! اور میں ت

100 ﻣﯿﮟ ﺳﮯ 99 ﺁﺩﻣﯽ ﺍﻧﺪﮬﮯ

  ﺑﯿﺮﺑﻞﺍﮐﺒﺮ ﮐﺎ ﻭﺯﯾﺮ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ 100 ﻣﯿﮟ ﺳﮯ 99 ﺁﺩﻣﯽ ﺍﻧﺪﮬﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺣﯿﺮﺕ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﺼﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻭ ﻭﺭﻧﮧ ﺳﺰﺍ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺅ ۔ﺑﯿﺮﺑﻞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺣﻀﻮﺭ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﻞ ﮨﻮﮔﯽ ۔ ﺍﮔﻠﮯ ﺭﻭﺯ ﺑﯿﺮﺑﻞ ﺷﺎﮨﺮﺍﮦ ﻋﺎﻡ ﭘﺮ بیٹھ ﮐﺮ ﭼﺎﺭ ﭘﺎﺋﯽ ﺑﻨﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﺳﺎتھ ﺑﭩﮭﺎ ﻟﯿﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ۔ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﺁﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺑﯿﺮ ﺑﻞ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ۔ ﺑﯿﺮ ﺑﻞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻌﺎﻭﻥ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ ﻣﯿﮟ لکھ ﺩﻭ ۔ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﺑﻦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ۔ﯾﻮﮞ ﻟﻮﮒ ﺁﺗﮯ ﮔﺌﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮔﺌﮯ ﺑﯿﺮ ﺑﻞ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮑﮭﻮﺍﺗﮯ ﮔﺌﮯ ۔۔ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﮨﯽ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﮔزﺭﺍ ﺗﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺑﯿﺮﺑﻞ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ۔ ﺑﯿﺮ ﺑﻞ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻭﻥ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟکھ ﺩﯾﺎ ۔ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮ ﭼﮭﺎ ﺧﯿﺮﯾﺖ ﮨﮯ ﺑﯿﺮﺑﻞ ﭼﺎﺭ ﭘﺎﺋﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﻦ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ۔ﺑﯿﺮﺑﻞ ﻧﮯ ﻣﻌﺎ ﻭﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﻮ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﺎﺩ ﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮨﻮﮐﺮ ﮐﮩﺎ ۔ﻋﺎﻟﯽ ﺟﻨﺎﺏ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﺩیکھ ﻟﯿﺠﯿﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻧ

نماز اپنے وقت پر

میں جلدی جلدی آفس سے گھر آیا۔۔ اور اماں کو کھانے کا کہہ کر وضو کرنے چلا گیا۔۔۔ مغرب کا وقت ختم ہونے والا تھا۔۔  جیسے تیسے وضو کیا اور نیت باندھ لی۔۔۔ دوران نماز بار بار اپنے گیلے چہرے کو اپنی کھلی آستینوں سے صاف کرتا رہتا۔۔۔  رکوع میں جاتے خیال آیا: " اماں کی دوائی تو لانا بھول ہی گیا۔۔۔ اوہ واپسی پر بچوں کی فیس کیلئے پیسے بھی اے ٹی ایم سے نکالنے تھے.۔۔ پھر سجدہ کیا تو وہاں بھی گھریلو ذمہ داریاں ایک ایک کر کے یاد آنے لگیں۔۔۔۔ تھکاوٹ کی وجہ سے نماز میں نیند کی جھٹکے آنے لگے.۔۔ بس پھر کیا تھا سجدے میں جاتے ہی نیند (غنودگی) کا جھونکا آ گیا۔۔۔۔  نیند میں عجیب منظر دیکھا۔۔۔  لوگوں کا ہجوم۔۔۔ ہر کوئی یہاں وہاں بھاگ رہا تھا۔۔۔ کچھ لوگ کاغذ تقسیم کر رہے تھے۔۔ میرے پاس آکر بھی کاغذ تھما دیا۔۔ جس پر میرا نام لکھا تھا۔۔ پوچھنے پر بتایا گیا یہ تمہارا اعمال نامہ ہے۔۔ اب جا کر وہاں سامنے جمع کروا دو جہاں باقی سب جمع کروا رہے ہیں۔۔  پھر نام پکارا جائیگا فیصلے کیلئے... میں نے بھی جا کر کاغذ جمع کروا دئیے اور لائن میں واپس آگیا اور اپنے نام پکارے جانے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔ نام پکارا جانے لگا.۔۔ &

ایک طالب علم امتحان میں فیل..

 ایک طالب علم کو استاد نے امتحان میں فیل کر دیا ۔ طالب علم شکایت لے کر پرنسپل کے پاس چلا گیا کہ مجھے غلط فیل کیا گیا ہے۔ پرنسپل نے استاد اور طالب علم دونوں کو بلا لیا اور استاد سے فیل کرنے کی وجہ پوچھی استاد صاحب نے بتایا کہ اس لڑکے کو فیل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ ہمیشہ موضوع سے باہر نکل جاتا ہے جس موضوع پر اسے مضمون لکھنے کو دیا جاۓ اسے چھوڑ کر یہ اپنی پسند کے مضمون پر چلا جاتا ہے۔ پرنسپل نے کوئی مثال پوچھی تو استاد صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ میں نے اسے موسم بہار پر مضمون لکھنے کو کہا تو وہ اس نے کچھ اس طرح لکھا۔ موسم بہار ایک بہت ہی بہترین موسم ہوتا ہے اور اس کے مناظر بہت ہی دلنشین ہوتے ہیں اس موسم میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوتی ہے اور سبزے کی بہتات ہو جاتی ہے ۔اس موسم کو اونٹ بہت پسند کرتے ہیں اور اونٹ بہت ہی طاقت ور جانور ہے۔ یہ صحراء کا جہاز کہلا تا ہے۔ اونٹ نہایت ہی صابر جانور ہے۔ لمبے لمبے سفروں پر نکلتا ہے اور زیادہ دن بھوک و پیاس برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عرب کے لوگ اونٹ کو بہت پسند کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پر نسپل صاحب نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ مناسبت کی وجہ سے بہار کی ب

"مقام انسانیت"

 پرانے وقتوں کا ذکر ہے بصرہ عراق کے ایک شخص نے حج کا اردہ کیا۔ جس کے لیے اُس نے دِن رات محنت مزدوری کر کے حج کے لیے اپنا زادِ راہ اکھٹا کیا۔ آج کل کے دور کی طرح اُس وقت بھی لوگ قافلوں کی صورت میں حج پر روانہ ہوتے تھے۔ قافلے کے افراد کو جمع کرنے کے لیے ایک انتظار گاہ بنائی گئی تھی جو اُس کے گھر سے کچھ ہی دور تھی۔ روانگی کے روز یہ شخص اپنے گھر والوں سے وداع لے کر نکلنے لگا تو فرطِ جذبات میں سب کے آنسو نکل آئے، اور سب نے اُسے اپنی دُعاؤں اور نیک خواہشات کے سائے میں رخصت کیا۔ اِس شخص کے گھر اور قافلے کی انتظار گاہ کے درمیان ایک جنگل پڑتا تھا۔ یہ شخص تیز تیز قدم اُٹھاتا جا رہا تھا کہ جنگل سے کچھ پہلے ایک گھر سے اچانک کسی خاتون اور بچوں کے رونے کی آواز نے اِسے چونکا دیا۔ اُن آوازوں میں اتنا درد تھا کہ اِس سے رہا نہیں گیا۔ وہ گھر کے قریب پہنچ کر کان لگا کر کھڑا ہو گیا تو اُس نے سنا کہ وہ خاتون رو بھی رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے بچوں سے کہہ رہی تھی "بیٹا! آج میرے پاس تمہیں کھلانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، جو کچھ تھا وہ کل رات کو ہی ختم ہو گیا تھا۔۔۔!" اور بچے بھوک اور پیاس کی شدت سے