{ مسجد کی ٹوپی }

 { مسجد کی ٹوپی }


دنیا میں کتنے غلط کام ہو رہے ہیں؟ کبھی کسی نے روکنے کی کوشش کی کہ کیوں کر رہے ہو۔؟

ہمت ہی نہیں کہنے کی۔ ذرا اپنے محلہ میں موجود کسی سود خور کو حکم ربی سنائیں۔

 دیکھیں پھر کیا کرتا ہے آپ کے ساتھ۔


لیکن لوگوں کی غیرت تب جاگتی ہے جب آپ مسجد سے وہ میلی پلاسٹک کی ٹوپی سر پر پہنے  باہر نکل آئیں۔

تب لوگوں کو لگتا ہے کہ کائناتی گردش رک جائے گی اگر اس شخص کو آگاہ نہیں کیا گیا۔

ساٹھ روپے درجن ٹوپیاں جو کل ملا کر بھی "مال متقوم" کے زمرے میں نہیں آتی ان کی ایک بہن آپ کے سر پر کیا سوار ہوجائے غلطی سے، بھائی تو جیسے دیوانے ہوجائیں۔

ابھی مسجد سے وہی ٹوپی سر پر رکھے باہر نکلا ہر بندہ کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے 

ایک نے ہمت کی اور کہا کہ یہ مسجد کی ٹوپی ہے جو آپ نے پہنی ہے۔

معا خیال گیا کہ ٹوپی مسجد سے باہر لے آئے ہیں۔

پھر سوچا چلو لوگوں سے کھیلتے ہوئے جاتے ہیں اور مغرب میں واپس رکھ دینگے 

ایک نے دور سے اتنی سرعت سے ہاتھ ہلانا شروع کیا کہ گمان ہی باطل کردیا ہمارا۔  بھاگتے ہوئے قریب آیا۔

 اکھڑی سانسوں کہنے لگا بھائی!بھائی!

 مسجد کی ٹوپی باہر لے آئے ہو آپ۔

اچھا؟ ٹوپیاں اعتکاف میں بیٹھی ہوتی ہیں کیا۔؟ 

اور پھر مصنوعی حیرانی سے سر سے ٹوپی اتاری جس پر چاروں طرف میل جمی تھی اور کہا کہ امام صاحب نے ہمیں ہدیہ کردی ہے لہذا اب یہ ہماری ہے۔


دوسرا ملا۔ پہلے تو ہنسا اور پھر جیسے ہی کچھ کہنے کیلئے زبان تولنے لگا ہم نے تو پہلے ان کی ہنسی کی دھجیاں بکھیریں اور پھر کہا کہ ٹوپی کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہو ؟

اپنے دانت دیکھو تم؟ شیدی کے بچے!

ابھی عصر کی نماز تم نے پڑھی ہے؟ 

ٹوپی کی بڑی فکر کھائے جا رہی ہے۔؟ 

کیا ہے اس چار روپے والی ٹوپی میں اگر کوئی یہ باہر لے آتا ہے؟

وہ۔۔ممم۔۔میرا مطل۔۔۔۔ کچھ بن نہیں پایا تو کہنے لگا لائیں ٹوپی۔ میں مسجد رکھ دونگا اور نماز بھی پڑھ لونگا۔!

کہا کہ ٹوپی امام صاحب نے ہدیہ کردی ہے بے فکر رہیں !

جائیں قبلہ نماز پڑھیں۔


دکان پر پہنچے تو کمیٹی کے صدر حاجی اسلم مل گئے، ایسی کھا جانے والی نظروں سے ہمیں دیکھا جیسے ہم نے انہیں گناہ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا ہو۔

بولے استغفراللہ ٹوپی تک مسجد سے لے آئے۔؟

حاجی صاحب ٹوپی میں کونسے ہیرے جواہرات نصب ہیں 

یا پھر ٹوپی کونسی نماز کے بعد امام صاحب ٹوکری سمجھ کر چندہ کی جگہ رکھتے ہیں؟

پلاسٹک کی ٹوپی ہے باہر آگئی تو قیامت تو نہیں آجانی آخر کو پانچ وقت کا نمازی ہوں !

بولے آپ کی بات درست ہے لیکن مسجد کی چیز باہر لے جانا سخت گناہ ہے۔

کہا کہ ماربل بھی؟

بولے ہیں؟؟ ماربل؟؟؟

بات یہ تھی کہ مسجد کے بچے کچے ماربل حاجی صاحب کے کچن میں بہت خوبصورت لگ رہے تھے 

ٹوپی سے بات ماربل پر گئی تو بولے۔ اچھا مغرب میں رکھ دینا بھئی لڑتے کیوں ہو۔؟

اب سوچ رہا ہوں کہ روزانہ مستقل ایک ایک ٹوپی مسجد سے اٹھایا کروں۔

اس کے دو فائدے ہیں۔

ایک تو لوگوں کے ذہن بدل جائینگے

دوسرا لوگ اپنی ٹوپی خریدنے لگ جائینگے اور اس پلاسٹک کی برائے نام ٹوپی سے جان چھوٹ جائے گی۔


عصر کے بعد درد دل سے لکھی گئی تحریر

Comments

Popular posts from this blog

Just five minutes more

احسان فراموش

What is the woman?