"مقام انسانیت"

 پرانے وقتوں کا ذکر ہے بصرہ عراق کے ایک شخص نے حج کا اردہ کیا۔ جس کے لیے اُس نے دِن رات محنت مزدوری کر کے حج کے لیے اپنا زادِ راہ اکھٹا کیا۔ آج کل کے دور کی طرح اُس وقت بھی لوگ قافلوں کی صورت میں حج پر روانہ ہوتے تھے۔ قافلے کے افراد کو جمع کرنے کے لیے ایک انتظار گاہ بنائی گئی تھی جو اُس کے گھر سے کچھ ہی دور تھی۔ روانگی کے روز یہ شخص اپنے گھر والوں سے وداع لے کر نکلنے لگا تو فرطِ جذبات میں سب کے آنسو نکل آئے، اور سب نے اُسے اپنی دُعاؤں اور نیک خواہشات کے سائے میں رخصت کیا۔ اِس شخص کے گھر اور قافلے کی انتظار گاہ کے درمیان ایک جنگل پڑتا تھا۔ یہ شخص تیز تیز قدم اُٹھاتا جا رہا تھا کہ جنگل سے کچھ پہلے ایک گھر سے اچانک کسی خاتون اور بچوں کے رونے کی آواز نے اِسے چونکا دیا۔ اُن آوازوں میں اتنا درد تھا کہ اِس سے رہا نہیں گیا۔ وہ گھر کے قریب پہنچ کر کان لگا کر کھڑا ہو گیا تو اُس نے سنا کہ وہ خاتون رو بھی رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے بچوں سے کہہ رہی تھی "بیٹا! آج میرے پاس تمہیں کھلانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، جو کچھ تھا وہ کل رات کو ہی ختم ہو گیا تھا۔۔۔!" اور بچے بھوک اور پیاس کی شدت سے مسلسل بِلک بِلک کے رو رہے تھے۔ ایک طرف قافلے والے اُس کا انتظار کر رہے تھے اور دوسری طرف ایک بھوکا خاندان کسی غیبی مدد کا منتظر تھا۔ یہ شخص شش و پنج میں مبتلا ہو گیا۔ آخر آسمان کی طرف نگاہ کر کے ہاتھ بلند کرتے ہوئے اللہ سے گویا ہوا۔۔"یا اللہ! آج میں عجیب دوراہے پر کھڑا ہوں، ایک طرف تیری عظیم عبادت ہے اور دوسری طرف یہ بے بس خاندان۔ نہ میں تیری عبادت چھوڑنا چاہتا ہوں اور نہ اِن لوگوں کو اِس حال میں چھوڑ سکتا ہوں۔ تو ہی راہنمائی کر میں کیا کروں۔۔؟" اور اگلے ہی لمحے اِس شخص نے اُس گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ خاتون نے دروازہ کھولا تو یہ شخص بولا، "بی بی! میں نہیں جانتا کہ تم لوگ کون ہو، میں بس اِدھر سے گزر رہا تھا کہ تمہاری رونے کی آواز نے مجھے رکنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے تمہاری ساری باتیں سن لی ہیں۔ یہ لو میرے پاس کچھ پیسے اور کھانے کی چیزیں ہیں، اِن سے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر لو۔۔۔!" وہ خاتون اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور روتے ہوئے بولی، "اے اجنبی! پچھلے دِنوں میرے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا۔ تبھی سے ہم پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔ آپ کی بہت بہت مہربانی جو آپ نے ہم غریبوں پر اتنا رحم کیا، اللہ آپ کی دلی مراد پوری کرے۔!" حج سے بڑھ کے اُس شخص کی دلی مراد اور کیا تھی، لیکن حج پر جانے کے لیے کل سرمایہ تو راہِ خدا میں قربان کر دیا تھا۔ اب یہ شخص نہ تو واپس گھر جا سکتا تھا کہ گھر والے کیا سوچیں گے، حج کیے بغیر واپس آگیا۔ اور نہ ہی بغیر زادِ راہ کے وہ قافلے میں شامل ہو سکتا تھا۔ چنانچہ وہ قریب کے جنگل میں چھپ کر بیٹھ گیا اور حج کے دِنوں کے گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دِنوں کے بعد جب حج کے دِن گزر گئے اور اُس کے قافلے کے لوگ جنگل کے راستے اپنے اپنے گھروں کو جانے لگے تو یہ بھی چپکے سے اُن میں شامل ہوگیا۔ تبھی ایک شخص اُس سے مخاطب ہوا اور بولا "جناب! حج مبارک ہو، میں نے آپ کو فلاں جگہ آبِ زم زم پیتے دیکھا تھا۔۔!" پھر کچھ دیر کے بعد ایک اور شخص بولا "میں نے آپ کو سعی کرتے دیکھا تھا۔۔!" ایک اور شخص بولا، "میں نے آپ کو طواف کرتے دیکھا تھا۔۔"! غرض کہ ہر حاجی اُس کی حج کے موقع پر موجودگی کی دلیل دینے لگا۔ یہ شخص گھر پہنچا گھر والوں نے بھی پُرتپاک استقبال کیا اور حج کی ڈھیر ساری مبارک باد دی۔ لیکن یہ شخص اندر ہی اندر پریشان تھا کہ "میں تو حج پر گیا ہی نہیں تھا، تو پھر کیوں ہر حاجی میرے وہاں پر موجود ہونے کی بات کر رہا ہے؟ ظاہر سی بات ہے حج سے واپسی پر کوئی حاجی جھوٹ تو نہیں بولے گا، لیکن ماجرہ کیا ہے یہ سمجھ سے باہر ہے۔۔!" انہی سوچوں میں گھومتے گھومتے اُسے نیند آ گئی، اور وہ سو گیا۔ عالمِ خواب میں اُسے بشارت ملی کہ "اے نیک دل انسان! تم نے حج جیسی عظیم عبادت کو چھوڑ کر مخلوقِ خدا کی مدد کی۔ اِس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے بالکل تمہاری شکل کے ایک فرشتے کو خلق کیا اور اُسے تمہاری نیابت میں حج پر بھیجا اور یہی نہیں بلکہ اُس فرشتے کے حج کا سارے کا سارا ثواب بھی تجھے ہی ملے گا۔ اور اسی لیے ہر حاجی تمہاری وہاں پر موجودگی کی دلیل دے رہا ہے۔۔۔! سبحان الله

 " حوالہ: )کتاب: "مقام انسانیت" سے ماخوذ

Comments

Popular posts from this blog

Just five minutes more

احسان فراموش

What is the woman?