اشرف المخلوقات

 اشرف المخلوقات


میں صوفے پر آڑا ترچھا لیٹا اونگھ رہا تھا کہ دروازے پر ہوتی دستک سن کر چونک گیا ___ بڑی بےزاری سے دروازے کی جانب تکا اور چار و ناچار اٹھ کر دروازہ کھولا 

میں وہ ہوں جسے آسمانوں سے زلیل کر کے نکالا گیا اور میں نے وعدہ کیا تھا خداوند سے کہ میں اسکی  مخلوق کو ساری عمر خوار کروں گا میں ہر حربہ آزمایا اور نت نۓ طریقے نکالے مگر یقین کرو میں ابن آدم اشرف المخلوقات سے ہار گیا مجھے یہ تسلیم کرنا پڑا کہ تم سب میرے گرو ہو 

دروازے کے اس پار شیطان ابلیس تھا جو ٹر ٹر کیے جا رہا تھا میں نے نہایت کوفت سے اسکی جانب دیکھا اور پوچھا ہاں بھئی خیر خیریت سے آۓ ہو  ؟؟؟  میرا اسے اندر بلانے کا کوئ ارادہ نہیں تھا ___ 

اس نے بغیر برا مانے کہا تمہیں میرے ساتھ چلنا ہو گا میں بہت دنوں سے خدا وند سے اک جگہ جانے کی اجازت مانگ رہا تھا جو مجھے آج مل گئ میں چاہتا ہوں تم میرے ساتھ چلو 

میرے تاثرات سے اسنے اندازہ لگایا کہ میں انکار کرنے والا ہوں تو اسرار کرنے لگا 

مجھے مانتے ہی بنی میں اسے دروازے پر ہی چھوڑ کر اپنے گلاسس اور پی کیپ اٹھانے اندر گیا  ___

میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا ___ عجیب گلیوں ، چوباروں سے گزار کر وہ مجھے اک ایسے گھر کے سامنے لے آیا جس میں سے وحشت ٹپکتی صاف نظر آ رہی تھی 

مجھے اک جھرجھری سی آئ ___ 

ابلیس مردود دروازے پر دستک دے چکا تھا __ چند منٹ میں ہی اک دس ، گیارہ سال کی بچی نے دروازہ کھولا اور کچھ بھی پوچھے بغیر ہمیں اندر آنے کا راستہ دیا 

باہر سے گھر لگنے والا اندر سے صرف اک بہت بڑا ہال کمرہ تھا جہاں ہر عمر کی بچیاں نظر آ رہی تھیں ، کچھ بچیاں بہت چھوٹی تھیں یہی  کوئ سال چھ ماہ کیں وہ بلک بلک کر رو رہی تھیں انھیں وہ بچیاں سنبھال رہیں تھیں جو نسبتاً کچھ بڑی تھیں 

سب معصومیت کی عمر میں تھیں مگر ان سب کے چہروں پر معصومیت غائب تھی جو کہ اس عمر کی بچیوں کا خاصہ ہے 

میں ابلیس کی معیت وہیں بچیوں کے پاس بیٹھ گیا انکی تعداد کافی زیادہ ہے ابلیس کافی سنجیدہ نظر آ رہا تھا اور یہی چیز مجھے حیرت میں ڈال رہی تھی 

سب خاموش تھے کبھی کبھی کسی چھوٹی بچی کے رونے کی آواز ماحول میں بے قراری پیدا کر رہی تھی کہ اس بے قراری کو ابلیس کی آواز نے توڑا 

میں ابلیس دھتکارا ہوا یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ کیوں اور کیسے ہوا ؟؟ 

میں نے نا سمجھی سے ابلیس کی جانب دیکھا کہ یہ کیسا سوال ہے اور یہ بچیاں ہیں کون ___

میری سوچوں کو اک دم ابھرنے والی آوازوں نے توڑا وہ سب اک ساتھ بول رہی تھیں پر مجھے پھر بھی سب کی سمجھ آ رہی تھی 

وہ وہ ہمارے گھر آتے تھے میرے بابا کے دوست تھے بہت اچھے تھے چیز بھی دیتے تھے پھر ایک دن مجھے اپنے ساتھ لے گۓ اور اور اور پھر میری بغیر کپڑوں کے لاش کھیتوں سے ملی ___ 

وہ ہمارے ہمساۓ تھے بھیا کے دوست تھے میں ان کے گھر کھیلنے جایا کرتی تھی اس دن شام کو جب میں گئ تو وہ گھر پر اکیلا تھا اور پھر میری برہنہ لاش ہی گٹر سے ملی ___

وہ میری مما کے کزن تھے میں انھیں ماموں کہتی تھی مما مجھے ان کے پاس چھوڑ کر بازار چلی گئیں اور پھر میری سانسیں چھین لی گئیں ___

وہ انکل تھے ، وہ بھائ تھے ، وہ ہمارے گھر آتے تھے ، میں انکے گھر جاتی تھی ، میں انکی بیٹی ساتھ کھیلتی تھی ، میں انکے گھر پڑھنے جاتی تھی ، وہ بھیا ساتھ کھیلتا تھا ، وہ ہمارے گھر آتا جاتا تھا ، میں انکی دوکان سے شے خریدنے جاتی تھی، وہ ہماری گلی میں ہی رہتا تھا 

آوازیں تھیں اور مسلسل تھیں سب کی الگ کہانی تھی مگر جو اس میں مشترکہ تھا وہ تھا اعتبار جو ان سب بچیوں کا ان سب پر تھا جنہوں نے انھیں پامال کیا 

ان میں اک اور بات بھی مشترکہ تھی وہ تھا درد جو انھیں سہنا پڑا جو انھیں جھیلنا پڑا اور صبر کرنا پڑا 

میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان بچیوں کو دیکھ رہا تھا وہ سب پامال کر کے ماری جا چکی تھیں نجھے اپنے احساسات سمجھ میں نہیں آ رہے تھے 

پھر میں نے ابلیس کی جانب تکا وہ اک چھ ماہ کی بچی کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا وہ بچی اپنا درد بیان نہیں کر سکتی تھی وہ بچی نہیں بتا سکتی تھی کہ اس پر کیا بیتی تھی اس نے کتنا درد سہا مگر ابلیس نجانے اس بچی میں کیا کھوج رہا تھا 

میرے پاس الفاظ نہیں تھے میں شرمندگی سے سر جھکاۓ ابلیس کو چھوڑ کر دروازہ پار کر گیا ___

Comments

Popular posts from this blog

Just five minutes more

احسان فراموش

What is the woman?