ملکی وقار خطرے میں کیوں

 

لاہور مینار پاکستان پر جومیں نے دیکھا 

(ناچاہتے ہوئے بھی اس مسئلے پر بوجہ عینی شاہد ہونے کے۔۔۔ اپنی رائے دے رہا ہوں۔)


میرا نام محمد اسحاق الہندی ہے اور میری  پیدائش لاہور کی ہے۔اس سال پہلی بار ایسا ہوا کہ میرے اپنے بچوں اور بھتیجوں نے ضد کی کہ ہمیں 14 اگست پر مینار پاکستان لے جائیں۔ہمیں معلوم تھا کہ وہاں بہت رش ہوگا چنانچہ بچوں کو ٹالنے کی بہت کوشش کی مگر آخر کار ان کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور بادل نخواستہ ھم نے چھوٹے بھائی کو بلا بھیجا کہ گاڑی لے کر آجاو۔۔۔ سب بچے پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔یوں ھم دونوں بھائی اپنی اپنی فیملیز کے ہمراہ مینار پاکستان گراونڈ لی طرف عازم سفر ہوگئے۔۔۔۔


حسب توقع وہاں بلا کا رش تھا اور اندر داخلے کے گیٹ بھی بند تھے۔ھم بچوں کو لیے ایک طرف کھڑے رہے کہ کہیں سے گیٹ کھلے تو اندر جائیں۔خدا کا کرنا یہ ہوا کہ کچھ ہی دیر بعد اندر داخلے کا دروازہ کھلا اور ھم لوگ الحمد للہ خیر و عافیت سے اندر داخل ہوگئے۔


مینار پاکستان گراونڈ میں ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں فیملیز موجود تھیں جو اپنے بال بچوں سمیت مختلف اطراف کے سبزے پر براجمان تھیں اور کھیل کود یا خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔کسی قسم کی کوئی ہڑبونگ نا تھی سب لوگ اپنی اپنی تفریح میں مگن تھے کہ اچانک ایک جانب سے ایک لڑکی برآمد ہوئی جس کے ساتھ کم از کم 20 سے 30 افراد کی پوری ایک پلٹون تھی جو اسے پروٹوکول دے رہی تھی۔میں اپنے بچوں کے لیے آئسکریم لینے کے لیے ایک جانب کھڑا تھا جب میری نظر اس لڑکی پر پڑی۔۔۔


وہ لڑکی انتہائی بے ہودہ انداز میں ہر طرف فلائنگ کس پاس کرتی ہوئی مینار پاکستان کے چبوترے کی جناب بڑھ رہی تھی۔واضح رہے کہ مینار پاکستان گراونڈ میں داخلہ کے بعد اندر کے صرف گراسی پلاٹ خالی تھے البتہ وہ چبوترے والی جگہ کے اردگرد جنگلہ لگا ہوا تھا جس کے اوپر خاردار تاریں بندھی ہوئیں تھیں۔تمام فیملیز انہی گراسی پلاٹس میں بیٹھی تھیں جب کہ اندر جنگلے والے چبوترے میں حد سے زیادہ رش تھا اور وہاں صرف اور صرف منچلے لڑکے تھے جو بھاگ بھاگ کر مینار پاکستان  کی بنیادوں پر بنائے گئے ان پلروں پر چڑھنا چاہ رہے تھے جو گلاب کی کھلی ہوئی کلی کی مانند چاروں طرف سے مینار کی بنیادوں کو گھیرے ہوئے ہیں۔۔۔۔


میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ لڑکی اس چبوترے پر جا چڑھی اور اس دوران اس پر ہر طرف سے ہوٹنگ اور آوزیں کسی جانے لگیں۔اس لڑکی کے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی اور وہ دانستہ طور پر چبوترے پر کھڑے لڑکوں کی سیٹیاں اور آوازیں انجوائے کرتے ہوئے مسلسل مسکرا رہی تھی۔یہ لڑکی پچھلے کوئی دو گھنٹوں سے پورے پارک میں ادھر ادھر ناچتی پھر رہی تھی اور جہاں جاتی تو وہاں کے لوگ اس کی وجہ سے اچھے خاصے ڈسٹرب ہورہے تھے۔۔۔

خیر۔۔۔۔جنگلے کے باہر سے میں نے چھچھوری حرکتیں کرنے والی اس لڑکی کو نفرت بھری نگاہ سے دیکھا اور پھر آئس کریم والے کی طرف متوجہ ہوگیا۔


کچھ دیر بعد جب میں آئس کریم والے کے پاس سے واپس مڑا تو سامنے عجیب منظر تھا۔۔۔لڑکے اس لڑکی کو ہر طرف سے چھیڑ رہے تھے اور اب  وہ ان کے درمیان رش میں پھنس چکی تھی۔مجھے اس کے بعد کا علم نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ۔۔۔لیکن میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ پورے پارک میں موجود لاکھوں لوگوں میں سے یہ واحد لڑکی تھی جو جان بوجھ کر مردوں اور آوارہ قسم کے لڑکوں کو پیچھے لگائے واہیات حرکتیں کرنے میں مصروف تھی۔


عرض کرنے کا مقصد یہ ہے یہ بکواس بند کیجئے کہ اس عورت کے ساتھ کوئی ظلم ہوا ہے۔یہ بے ہودہ عورت تو خود لوگوں کو فلائنگ کسیں دیتی پھر رہی تھی۔مرد اس کے ساتھ فوٹو کھنچوا رہے تھے ۔۔۔۔۔بیسوں لڑکوں نے اسے اپنے بازو میں جکڑ کر پورے پارک میں چکر لگوائے۔۔۔۔

اب اگر اس دوران اس کے ساتھ کوئی نازیبا حرکت ہوئی ہے تو اس میں انہونی کیا ہے؟؟؟؟


یار لوگ شور مچا رہے ہیں کہ اگر اس لڑکی کی غلطی بھی تھی تو کیا اس پر ایسے ٹوٹ پڑنے کا کوئی جواز بنتا ہے؟؟؟

بھائیو!  

حقائق کو سمجھو۔۔۔۔ پبلک مقامات پر اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ آئے ہوتے ہیں۔اور قرآن کا فیصلہ ہے کہ

"الخبیثات للخبیثین والخبیثون للخبیثات" کہ برے ہمیشہ بروں کے پیچھے ہی بھاگتے ہیں۔تو ایسی اوباش لڑکی کے پیچھے اوباش قسم کے لڑکے ہی لگے۔شرفاء تو ان کی بے ہودگیوں سے خود تنگ آئے ہوئے تھے۔


کچھ لوگ شور مچا رہے ہیں کہ اس واقعے سے ملک و قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔۔۔

یہ ڈرامے بازی بند کریں۔۔۔ ملکی وقار تب خطرے میں کیوں نہیں پڑتا جب اس سمیت  یہاں کی ہزاروں بے ہودا لڑکیاں  ٹک ٹاک پر ہر روز واہی تباہی کا ایک نیا باب رقم کر رہی ہوتی ہیں۔۔۔؟؟؟


سیدھی سی بات ہے یہ صرف مغربی پیمانہ ہے کہ معاشرے میں بھلے جس قدر مرضی بے حیائی ہو،اس پر کوئی نکیر ہوگی نا اس سے ملک و قوم کی عزت پر کوئی حرف آئے گا۔۔۔۔لیکن جونہی اس بے حیائی کے نتیجے میں کسی کے ساتھ کچھ برا ہوگا،سب کو مرچیں لگ جائیں گی اور ظلم زیادتی کا واویلا شروع ہوجائے گا۔۔۔مردوں کو ہر قسم کی گالی سے نوازا جائے گا پورے ملک کو درندوں کا ملک قرار دے دیا جائے گا۔۔۔۔یہ کیا بکواس ہے؟؟؟؟؟


اس ایک لڑکی کے پیچھے ھم ان لاکھوں کو شرفاء کو بھی گالیوں سے نواز رہے ہیں جو اسی پارک میں اپنی اپنی فیملیز سمیت موجود تھے اور ہرگز کوئی بیہودگی نہیں کی۔اگر ہمارا معاشرہ  غنڈوں کا ہجوم ہوتا یا سارے مرد ہی بھوکے بھیڑیے ہوتے تو وہاں سے ایک دو نہیں ہزاروں واقعات رپورٹ ہوتے-

Comments

Popular posts from this blog

Just five minutes more

احسان فراموش

What is the woman?